![Uswa e Rasool e Akram [S.A.W]](/store/1047/Cover Logo.jpg)
صبر و شکر
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی ایسے شخص کو دیکھے جو مال و دولت اور جسمانی بناوٹ یعنی شکل وصورت میں اس سے بڑھا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے دل میں حرص و طمع اور شکایت پیدا ہو تو اس کو چاہیے کہ کسی ایسے بندے کو دیکھے جو ان چیزوں میں اس سے بھی کمتر ہے ۔ تا کہ بجائے حرص وطمع کے اور شکایت کے
صبر و شکر پیدا ہو۔
(بخاری و مسلم، معارف الحدیث)
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اس کو خوشی ، راحت اور آرام پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ اس کو بھی اپنے حکیم و کریم رب کا فیصلہ سمجھتے ہوئے اور اس کی مشیت پر یقین کرتے ہوئے اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیر و موجب برکت ہوتا ہے۔
(معارف الحدیث)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی ( حضرت زینب ) نے آنحضرت ﷺ کے پاس کہلا بھیجا کہ میرے بچے کا آخری دم ہے اور چل چلاؤ کا وقت ہے۔ لہذا آپ اسی وقت تشریف لے آئیں ۔ آپ ﷺ نے اس کے جواب میں کہلا کے بھیجا اور پیام دیا کہ بیٹی! اللہ تبارک و تعالی جو کچھ لے وہ بھی اسی کا ہے اور کسی کو جو کچھ دے وہ بھی اس کا ہے۔ الغرض ہر چیز ہر حال میں اس کی ہے ( اگر کسی کو دیتا ہے تو اپنی چیز دیتا ہے اور کسی سے لیتا ہے تو اپنی چیز لیتا ہے ) اور ہر چیز کے لیے اس کی طرف سے ایک مدت اور وقت مقرر ہے اور اس وقت کے آجانے پر وہ اس دنیا سے اٹھائی جاتی ہے ) پس چاہیے کہ تم صبر کرو اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس صدمہ کے اجر و ثواب کی طالب بنو۔ صاحبزادی صاحبہ نے پھر آپ ﷺ کے پاس پیام بھیجا اور قسم دی کہ اس وقت حضور ضرور ہی تشریف لے آئیں۔ پس آپ ﷺ اٹھ کر چل دیئے اور آپ کے اصحاب میں سے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ، معاذ بن جبل ،ابی بن کعب اور زید بن ثابت اور بعض اور لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ ہوئے۔ پس وہ بچہ اٹھا کر آپ ﷺ کی گود میں دیا گیا اور اس کا سانس اکھڑ رہا تھا۔ اس کے اس حال کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس پر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا حضرت یہ کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ رحمت اس جذبے کا اثر ہے جو اللہ تبارک وتعالی نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھ دیا ہے اور اللہ کی رحمت انہی بندوں پر ہوگی جن کے دلوں میں رحمت کا یہ جذبہ ہو اور جن کے دل سخت اور رحمت کے جذبے سے خالی ہوں گے، وہ خدا کی رحمت کے مستحق نہ ہوں گے۔
( معارف الحدیث )